Thursday 16 February 2012

::::|| VU ||:::: جو شخص کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے


جو شخص کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے


باب:8-- جو شخص کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے (1)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
(أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (سورة النجم53: 20))
"
بھلا تم نے کبھی لات، عزی اور تیسری گھٹیاو حقیردیوی منات کے بارے میں بھی غور کیا ہے۔"(2)
ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ کے ہمراہ حنین کی طرف جارہے تھے ابھی ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔(راستےمیں)مشرکین کی ایک بیری تھی۔ وہ (عظمت اور برکت کے خیال سے)اس کے پاس آکر ٹھہرتے اور(برکت کے لیے)اپنے ہتھیار بھی اس پر لٹکایا کرتے تھے۔ اس کا نام "ذات انواط"تھا۔ چلتے چلتے ایک بیری کے پاس سے ہمارا گزر ہوا تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ()!جیسے ان مشرکین کا "ذات انواط"ہے۔آپ ہمارے لیے بھی ایک "ذات انواط"مقرر فرمادیں رسول اللہ نے فرمایا:
(اَللهُ أَكْبَرُ! إِنَّهَا السُّنَنُ، قُلْتُمْ وَالًّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوْسى (اجْعَل لَّنَا إِلهَاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ) (لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ)(جامع الترمذی، الفتن، باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم، ح:2180 ومسند احمد:5 / 218)
"
اللہ اکبر!یہی تو (گمراہی اور سابقہ قوموں کے) راستے ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کی جو بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ :(اے موسی!)جیسے ان (بت پرستوں)کے معبود ہیں، آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں۔ پھر نبی نے فرمایا: تم بھی پہلی امتوں کے طریقوں پر چلوگے۔" (3)

مسائل
1) "
سورۃ النجم"کی آیت 19-20 کی تفسیر ہے۔
2)
صحابہ کرام رصی اللہ عنہم کے "ذات انواط"مقرر کرنے کے مطالبہ کی صحیح توجیہہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ صرف تبرک کی خاطر "ذات انواط" مقرر کرانا چاہتے تھے ان کا مقصود اسے معبود بنانا نہ تھا۔
3)
واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی اس خواہش کا محض اظہار ہی کیا تھا۔ اسے عملی جامہ نہیں پہنایا تھا۔
4)
اور اس سے ان کا مقصود قرب الہی کا حصول ہی تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالی اسے پسند فرماتا ہے۔ مگر حقیقت میں ان کی یہ بات درست نہ تھی۔
5)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی عظیم ہستیوں پر شرک کی یہ قسم مخفی رہی تو عام لوگوں کا اس سے ناواقف یا نابلد(ناآشنا)رہنا زیادہ قرین قیاس ہے۔
6) (
اعمال صالحہ کے بدلے میں)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو نیکیوں اور بخشش کے وعدے کیے گئے ہیں وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتے۔
7)
رسول اللہ نے اس بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو معذور نہ جانا بلکہ آپ نے ان کی تردید کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی ان تین جملوں میں بیان کی۔(اَللهُ أَكْبَرُ! إِنَّهَا السُّنَنُ، لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ) "اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہی تو گمراہی کےراستے ہیں۔ تم پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔"
8)
سب سے اہم بات جو اصل مقصود ہے وہ نبیکا صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ فرمانا کہ "تمہارا مطالبہ اور تمہاری فرمائش بھی بنی اسرائیل جیسی ہے۔" انہوں نے کہا تھا کہ "اے موسی!ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر جس طرح ان کے معبود ہیں۔" تو تم نے بھی ویسا مطالبہ کر دیا۔
9)
اس قسم کے مقامات کو متبرک اور مقدس نہ سمجھنا بھی توحید اور کلمہ توحید کا تقاضاہے۔ یہ ایک انتہائی دقیق اور پوشیدہ بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا ادراک نہ کرسکے۔
10)
فتوی دیتے ہوئے فتوی پر قسم اٹھانا جائز ہے جبکہ بلا مقصد اور بلا مصلحت قسم اٹھانا رسول اللہکی عادت نہ تھی۔
11)
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذات انواط کے مطالبہ کے باوجود انہیں مرتد نہیں سمجھا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ(تبرک)میں شرک بڑا بھی ہوتا ہے اور چھوٹا بھی۔
12)
ابو واقد رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ "اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔" اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس مسئلہ کا علم تھا کہ ایسا کرنادرست نہیں۔
13)
اظہار تعجب کے موقع پر "الله اکبر"کہنا جائز ہے۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔
14)
شرک و بدعت کے تمام اسباب و ذرائع کا سدباب کرنا ضروری ہے۔
15)
اہل حاہلیت سے مشابہت کرنا جائز نہیں۔
16)
دوران تعلیم و تدریس کسی شاگرد کی غلطی پر ناراضی کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
17)
نبی نے "إِنَّهَا السُّنَنُ"فرما کر عمومی اصول بیان فرمادیا۔
18)
نبی کا یہ فرمانا کہ "تم لوگ پہلی امتوں(یہود ونصاری)کے طریقوں پر چلو گے۔"یہ حدیث آپ کی علامت نبوت میں سے ہے کیونکہ آج کل بعینہ ایسا ہو رہا ہے۔
19)
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جن کاموں اور باتوں پر یہود و نصاری کی مذمت فرمائی ہے وہ دراصل ہمیں تنبیہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے بچ کر رہیں۔
20)
اہل علم کے ہاں یہ اصول طے ہے کہ عبادات کی بنیاد اللہ تعالی کے حکم اور امرپر ہے۔ اپنی مرضی یا خواہش سے کوئی عبادت مقرر نہیں کی جاسکتی۔ اس سے قبر کےسوالات پر تنبیہ ہے کہ قبر میں پہلا سوال یہ ہو گا کہ "تیرا رب کون ہے؟" یہ تو واضح ہے کہ البتہ دوسرا وسوال "تیرا نبی کون ہے؟" اس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے اور تیسرا سوال کہ "تیرا دین کیا ہے؟"اس پر آیت "اجْعَل لَّنَا إِلهَاً"دلالت کرتی ہے۔
21)
اہل کتاب کے طور طریقے بھی اسی طرح مذموم ہیں جیسے مشرکین کا مذہب اور ان کے طوراطوار مذموم ہیں۔
22)
جو شخص نیا نیا مسلمان ہوا ہو اس کے دل میں دور کفر و شرک کی عادات و اطوار کا پایا جانا بعید ازقیاس نہیں۔ جیسا کہ پیش نظر واقعہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس قول سے واضح ہے کہ ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا یعنی ہم ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔

نوٹ:-
(1)
ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مشرک ہے۔
تبرک کا معنی، برکت حاصل کرناہے۔ یعنی خیر اور بھلائی کی کثرت اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی تمنا اور خواہش رکھنا ۔ قرآن و سنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ برکت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے ۔ مخلوق میں سے کوئی ، کسی کو برکت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
(تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (سورة الفرقان25: 1))
"
بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان(قرآن)نازل کیا۔"
یعنی اس ذات کی خیر و بھلائی بہت عظیم ، بہت زیادہ اور ہمیشہ رہنے والی ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا اور فرمایا:
(وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ (سورة الصافات37: 113))
"
ہم نے ابراہیم (علیہ السلام)ا ور اسحق(علیہ السلام)پر برکتیں نازل کیں۔"
نیز فرمایا:
(وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا(سورة مريم19: 31))
"(
عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود میں کہا تھا)اور اللہ نے مجھے بابرکت بنایا ہے۔"
تو برکت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے۔ مخلوق میں سے کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں نے فلاں چیز میں برکت ڈالی یا میں تمہارے کام کو بابرکت بناؤں گا یا تمہارا آنا مبارک ہے۔ چونکہ خیر، اس کی کثرت اور اس کا لزوم اور دوام صرف اسی ذات کی طرف سے ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تمام تر معاملات کا اختیار ہے، اس لیے لفظ "برکت"کا محور و منبع صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالی نے برکت سے نوازا ہے وہ یا تو کچھ مقامات یا اوقات ہیں یا افراد و شخصیات۔
پہلی قسم:مقامات یا اوقات۔
ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالی نے بعض جگہوں کو بابرکت بنایا ہے جیسے بیت اللہ شریف اور بیت المقدس کا آس پاس وغیرہ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں میں بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے اور یہ خیر و برکت ان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جن لوگوں کو ان کی زیادت کی دعوت دی گئی ہے ان میں یہ رغبت اور شوق پیدا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنا تعلق اور دلی لگاؤ ان کے ساتھ رکھیں۔
ان جگہوں کے بابرکت ہونے کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ وہاں کی سرزمین یا دیواروں کو چھوا جائے کیونکہ یہ برکت ان کے ساتھ اس طرح سے لازم ہے کہ کسی دوسری چیز میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ یعنی زمین کو چھونے، وہاں دفن ہونے اور اسے متبرک سمجھنے سے اس کی برکت منتقل نہیں ہوجاتی۔
کسی جگہ کے بابرکت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کا دلی تعلق اس جگہ کے ساتھ وہ جیسے بیت اللہ الحرام ہے کہ اس کا قصد و ارادہ کرنے والا، وہاں جاکر اس کا طواف کرنے والا اور عبادت بجالانے والا بہت ہی خیر کا مستحق ٹھہرتا ہے، حتی کہ حجراسود بھی ایک بابرکت پتھر ہے لیکن اس کی برکت بھی عبادت ہی کی بنا پر ہے۔یعنی جو شخص نبی کی اتباع واطاعت کرتے ہوئےبطور عبادت اسے چھوئے اور بوسہ دےگا وہ اس اتباع کی برکت بھی پالےگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:
(إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَنْفَعُ وَلاَ تَضُرُّ)(صحیح البخاری، الحج، باب ما ذکر فی الحبر الاسود، ح1597 وسنن ابی داود، المناسک، باب فی تقبیل الحجر، ح:1873 واللفظ له)
"
میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ کوئی نقصان۔" یعنی کسی میں کوئی نفع منتقل کرسکتا ہے نہ کوئی ضرر دفع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رہے اوقات! تو کسی وقت ، ماہ رمضان یا اس کے علاوہ فضیلت کے حامل دیگر ایام کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں عبادت بجالانا اور بھلائی کا قصد کرنا جس قدر زیادتی اجر و ثواب کا باعث ہے، ان کے علاوہ دوسرے ایام میں اس قدر اجر و ثواب نہیں۔
دوسری قسم: جس برکت کا تعلق شخصیات کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالی نے انبیاء و رسل کی ذات میں برکت رکھی تھی یعنی ان کے اجسام بابرکت تھے کہ ان کا کوئی امتی اگر ان کے اجسام کو ہاتھ لگا کر یا ان کا پسینہ حاصل کر کے یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کرنا چاہتا تو یہ اس کے لیے جائز ہوتا تھا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے جسموں میں برکت رکھی تھی۔ اسی طرح سیدنا محمد کا جسم اطہر بھی بے حد مبارک تھا۔
احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پسینے ، بالوں اور دیگر اشیاء سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ انبیاء ورسل کی برکت ذاتی ہوتی تھی۔ اس برکت اور فضل و خیر کا ان کے جسموں سے دوسروں تک منتقل ہونا ممکن تھا۔ اور یہ صرف انبیاء کا خاصہ تھا۔
رہے انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگ تو انبیاء کے امتیوں میں سے کسی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں کہ اس کی ذات بھی بابرکت ہو، حتی کہ اس امت(محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و التسلیم) کی افضل ترین شخصیات، ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی تبرک لینے کی کوئی دلیل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور مخضرمین (وہ لوگ جو عہد نبوی میں اسلام قبول کر چکے تھے لیکن نبیسے ملاقات نہیں ہوئی تھی)، ابو بکر وعمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم سے اس طرح تبرک نہیں لیا کرتے تھے جس طرح نبی کے بالوں یا وضوء کے پانی سے تبرک لیتے تھے۔ ان بزرگ شخصیات کی برکت تو محض ان کے اعمال کی برکت ہوتی تھی نہ کہ ذات کی، کہ نبی کی ذاتی برکت کی طرح ان کی برکت بھی دوسروں تک منتقل ہوسکے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلمان میں برکت ہے اور یہ برکت اس کی ذات میں نہیں بلکہ اس کے عمل یعنی اسلام، ایمان، اللہ پر یقین اور دل میں اس کی عظمت و جلالت اور رسول اللہکی اتباع کی برکت ہے اور یہ علم، عمل اور نیکی کی برکت دوسروں تک منتقل نہیں ہوسکتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیک لوگوں سے تبرک لینے کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی میں ان کی اقتداء اور پیروی کی جائے اور اہل علم سے تبرک لینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے علم حاصل کیا جائے اور ان کے علوم سےاستفادہ کیا جائے۔ ان کے جسموں کو چھو کر یا ان کے لعاب سے تبرک لینے کا نظریہ واعتقاد رکھنا ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ اس امت کے افضل ترین لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)نے اپنے سے بہتر صحابہ ، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ کبھی اس قسم کا معاملہ نہیں کیا تھا۔
مشرکین،معبودان باطلہ سے تعلق قائم کرکے خیر اور بھلائی اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی امید سے تبرک لیتے تھےاور یہ تبرکات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں کہ سراسر شرکیہ ہیں۔
کوئی شخص ، کسی درخت ، پتھر، زمین کے قطعے ، غار ، قبر، پانی کے چشمے یا دیگر اشیاء کو ، جن کے بارے میں جاہل لوگ غلط اعتقاد رکھتے ہیں، متبرک سمجھے وہ شرک ہے۔
یادرہے! کسی درخت، پتھر، قبر یا کسی قطعہ زمین کو متبرک سمجھنا اس وقت شرک اکبر بن جاتا ہے جب کوئی آدمی ان کی برکت کے حصول کی امید میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس درخت ، پتھر یا قبر وغیرہ کو جب وہ چھوئےگا، اس کی خاک میں لت پت ہوگا یا اس کے ساتھ چمٹے گا تو یہ اس کے لیے اللہ کے تقرب کا واسطہ اور ذریعہ ہوگا اور جب اس کے بارے میں یہ اعتقاد قائم کرلیا کہ یہ اللہ کے قرب کے حصول کا وسیلہ اور واسطہ ہے تو یہ غیر اللہ کو معبود بنالینے کے مترادف ہوگا جو کہ شرک اکبر ہے۔
اہل جاہلیت جن درختوں اور پتھروں کو پوجتے یا جن قبروں سے تبرک لیتے تھے ان کے بارے میں ان کا یہی زعم اوراعتقاد ہوتا تھا کہ جب وہ ان کے پاس مجاوربن کر ٹھہریں گے، ان کو چھوئیں گے یا اپنے اوپر قبر کی مٹی ڈالیں گے تو وہ چیز، قطعہ زمین یا اس قطعہ زمین والا یا اس کی خدمت گزار روح ان کے لیے اللہ کے تقرب کے حصول کا واسطہ اور ذریعہ ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
(وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى(سورة الزمر39: 3))
"
جن لوگوں نے اللہ کے سوا غیروں کو اپنے مددگار بنا رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب ترین کردیں۔"
اور تبرک، شرک اصغر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آدمی قبر کی مٹی لے کر اپنے اوپر محض اس نظریے سے ڈالے کہ یہ مٹی بابرکت ہے یا اپنا جسم کسی چیز کے ساتھ اس لیے ملے کہ اس کے سبب سے میرا جسم بھی بابرکت ہوجائے گا تویہ شرک اصغر ہے کیونکہ اس نے عبادت کا حقدار غیر اللہ کو نہیں ٹھہرایا بلکہ اس نے ایک ایسی چیز کو(برکت کے حصول کا)سبب تصور کیا ہے جس کی شرعا اجازت نہیں۔
(2)
لات:یہ سفید رنگ کا ایک پتھر تھا جو اہل طائف کا معبود تھا۔ اس پر ایک عمارت کھڑی کی گئی تھی۔اور اس کے متعدد خدام(مجاور)بھی تھے۔ قبیلہ ثقیف مسلمان ہوا تو نبی کریم نے اس بت کو توڑنے اور منہدم کرنے کے لیے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔ انہوں نے جاکر اسے گرایا اور توڑڈالا۔
عزی: یہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک درخت تھا۔ بعد میں ببول کے تین درختوں کے اوپر ایک عمارت کھڑی کردی گئی۔ اس کے بھی مجاور تھے۔ وہاں ایک کاہنہ عورت تھی جو اس شرک کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ادھر روانہ فرمایا انہوں نے جاکر تینوں درخت کاٹ ڈالے۔ اور اس کاہنہ عورت کو جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جنات کو حاضر کیاکرتی تھی، قتل کرڈالا۔ دراصل لوگوں کو اس درخت اور شرک کا اہتمام کرنے والی اس کاہن عورت کے ساتھ خصوصی عقیدت و محبت تھی۔
مناۃ: یہ مشرکین کی ایک تیسری دیوی تھی جسے اللہ تعالی نے گھٹیا اور حقیر کہا ہے۔ اس کی تعظیم کے نظریہ سے لوگ اس کے قریب جانور ذبح کرتے اور اس پر خون بہایا کرتے تھے۔ وہاں جانور ذبح کیے جانے اور خون بہائے جانے کی وجہ سے اسے (عربی لغت کے لحاظ سے) "مناۃ"کہا جاتا تھا۔
آیت کی اس باب سے مناسبت: اس آیت کی اس باب سے وجہ مناسبت یہ ہے کہ لات اور منات دونوں پتھر تھے جبکہ "عزی"ایک درخت تھا۔ ان پتھروں اور درختوں کے ساتھ اس زمانہ کے مشرکین وہی معاملہ کیا کرتے تھے جو بعد کے زمانوں کے مشرکین پتھروں ، درختوں اور غاروں کے ساتھ روا رکھتے آرہے ہیں جبکہ قبروں کو معبود بنا کر ان کے قریب عبادت کرنا اور انہیں اپنی توجہ و فریاد کا مرکز بنالینا تو اس سے بھی سنگین جرم ہے۔
(3)
یہ حدیث سندا صحیح اور عظیم الشان ہے۔ غور کیجئے!مشرکین کا اس بیری کے درخت کے بارے میں ایک خاص اعتقاد تھا اور اس اعتقاد میں تین چیزیں شامل تھیں۔
(
الف) وہ اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
(
ب) وہ تعظیم اور تقرب کی نیت سے اس کے پاس ٹھہرتے اور اعتکاف کرتے تھے۔
(
ج) وہ اپنے ہتھیار اس پر اس نیت سے لٹکاتے تھے کہ اس درخت کی برکت ان ہتھیاروں میں منتقل ہوگی جس سے یہ تیز تر اور استعمال کرنے والے کے لیے بہتر ثابت ہوں گے۔ ان کے اعتقاد میں بیک وقت ان تینوں چیزوں کے شامل ہونے کی وجہ ہی سے ان کا یہ فعل ، شرک اکبر تھا۔
صحابہ میں سے جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! جیسے ان مشرکین کا ذات انواط ہے آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمادیں۔" ان کاگمان تھا کہ یہ عمل شرک میں داخل نہیں ہے اور کلمہ توحید "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه"سے اس فعل کی نفی نہیں ہوتی۔ اسی لیے علماء کا کہنا ہے کہ بسا اوقات بڑے بڑے فضلاء سے بھی شرک کی بعض صورتیں مخفی رہ جاتی ہیں۔ جیسا کہ صحابہ جو کہ لغت عرب سے خوب واقف تھے اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ان سے بھی توحید فی العبادت کی یہ قسم مخفی رہی۔ ان نو مسلم صحابہ کے اس مطالبے پر رسول اللہ نے جواب میں فرمایا: "اللہ اکبر!یہی تو گمراہی کے راستے ہیں۔ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ :(اے موسی!)جیسے ان کے معبود ہیں آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دیں۔"
آپ نے بطور تنبیہ ان کے اس مطالبے کو قوم موسی (بنی اسرائیل)کے اس مطالبے کے ساتھ تشبیہ دی جو انہوں نے بت پرستوں کو دیکھ کر موسی علیہ السلام سے کہا تھا ان کے معبودوں کے طرح ہمارا بھی ایک معبود مقرر کردیں۔
(
نو مسلم) صحابہ کا جو مطالبہ تھا ان کا عمل اس کے مطابق نہ تھا اور جب نبی نے ان کو روکا تو وہ رک گئے اور اگر وہ یہ عمل کر بیٹھتے تو یہ شرک اکبر ہوتا۔ لیکن جب انہوں نے محض زبانی طور پر مطالبہ پیش کیا تھا اور عمل نہیں کیا تھا تو ان کا یہ قول شرک اصغر کے زمرہ سے ہوا کیونکہ یہ مطالیہ میں غیر اللہ کےساتھ تعلق و ربط کا اظہار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی نے انہیں ازسرنو اسلام قبول کرنے کا حکم نہیں دیا۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس شرک اکبر میں مشرکین مبتلا تھے وہ ذات انواط سے محض تبرک لینے تک محدود نہیں تھابلکہ اس کی تعظیم کرنا، وہاں قیام و اعتکاف کرنا اور ہتھیار لٹکاکر برکت کے حصول کا نظریہ رکھنا بھی اس میں شامل تھا۔ اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ جب کسی درخت یا پتھر وغیرہ سے تبرک لینے میں یہ اعتقاد شامل ہو کہ یہ چیز اللہ کے قرب کے حصول کا ذریعہ اور اس کے سامنے حاجات پیش کرنے کا وسیلہ ہے اور اس سے تبرک لینے کی بنا پر حاجت پوری ہونے کی امید زیادہ قوی اور کام کا انجام بہتر ہوگا، تو یہ شرک اکبر ہے اور زمانہ جاہلیت(اسلام سے پہلے)کے لوگ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے۔
موجودہ زمانہ میں قبروں کے پجاری اور اہل بدعت و خرافات کے اعمال و کردار پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کفارومشرکین لات، عزی اور ذات انواط کے ساتھ جو معاملہ کرتے اور ویسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ آج کل دنیا میں جن جن مقامت پر شرک ہو رہا ہے، آپ دیکھیں گے کہ لوگ قبر کے اردگرد چار دیواری اور لوہے کے جنگلوں کو بھی اسی طرح بابرکت سمجھتے ہیں بلکہ وہ چار دیواری اور جنگلے کور چھوتے ہوئے یہی تصور کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے خود صاحب قبر ہی کو چھولیا اور ہاتھ لگالیا ہے۔ ان اشیاء کی تعظیم کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ گویا اس طرح انہوں نے صاحب قبر ہی کی تعظیم کی ہے۔ ایسا کرنا بہت بڑا شرک ہے کیونکہ حصول نفع اور ضرر کے دفعیہ کے لیے ان کا دل غیر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان غیروں کی تعظیم کرنے سے ہمیں اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوگا۔ حالانکہ مشرکین بھی تو ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان کی بات بیان کی ہے وہ کہا کرتے تھے ۔
(مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى(سورة الزمر39: 3))
"
ہم ان (غیراللہ)پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالی کے قریب تر پہنچا دیں۔"
آج کل کے بعض مشرک، بعض جگہوں کو ہاتھ لگانے یا مس کرنے کو بھی قرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مثلا بعض لوگ حرم میں آکر حرم کے بیرونی دروازوں، دیواروں یا بعض ستونوں کو ہاتھ لگاتے اور چومتے ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ یہ ہو کہ اس ستون میں کوئی روح ہے یا اس کے قریب کوئی ہستی مدفون ہے یا کوئی اچھی روح ان دروازوں ، دیواروں یا ستونوں کی خدمت کرتی ہے اس لیے وہ انہیں چھوتے ہیں تو ان کا یہ عمل "شرک اکبر"یعنی بہت بڑا شرک ہے۔ اور اگر ان کا عقیدہ ہو کہ یہ جگہ بڑی بابرکت اور مقدس ہے اور اسے چھونا یا ہاتھ لگانا مفید ہو سکتا ہے تب یہ عمل شرک اصغر ہے۔

 

Remember Me In Prayers

Aadi Khan


Subcribe E-Mail Click Here
Subcribe SMS Click Here
Join UOFace Book
Visit Website Click Here


--
For study materials, past papers and assignments,
Join VU School at www.vuscool.com
 
Facebook Group link
http://www.facebook.com/groups/vuCoooL
 
CoooL Virtual University Students Google Group.
To post to this group, send email to coool_vu_students@googlegroups.com

No comments:

Post a Comment