Tuesday 3 April 2012

Re: [Pak Youth] صومالیہ میں نائٹ کلب کے مالک عبد اللہ کی خانہ کعبہ کا موذن بننے کی کہان

poori kahani tou nahi parhi but 1st line sey andaaza ho gia hai k ye nice sharing hai keep it up dear

2012/4/3 mc100400999 Gul Nargis Shaheen <mc100400999@vu.edu.pk>
On 4/3/12, Adnan Ahmed Qazi <mc110200577@vu.edu.pk> wrote:
>>>> صومالیہ میں نائٹ کلب کے مالک عبد اللہ کی خانہ کعبہ کا موذن بننے کی کہانی
>>>>
>>>>
>>>>
>>>> میں ایک مشہور گلوکار تها لیکن پهر جب میں جب نائٹ کلب کا مالک بن گیا تو
>>>> پھر وہاں گانے گاتا مقدیشو کے ہوٹل اور نائٹ کلب میری بکنگ کے لیے زیادہ سے
>>>> زیادہ رقومات پیش کرتے۔
>>>>
>>>> راتوں کو زندہ کرنے کیلئے، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مزید
>>>> پاپولر بنانے کیلئے میں نت نئے ناٹک رچاتا۔ عریاں ڈانس، فحش مکالمات اور
>>>> عشقیہ
>>>> گیتوں کے ذریعے پیسہ کمانا
>>>>
>>>> ہمارا مقصد حیات بن چکا تھا۔ جب یہ چیزیں میسر ہوں تو پھر شیطان خوب خوش
>>>> ہوتا ہے۔ بگڑے ہوئے گھرانے، ان کی امیر لڑکیاں، اور لڑکے، شراب، نشہ،
>>>> ہیروئن
>>>> سب کچھ میسر تھا۔ رقص
>>>>
>>>> گاہیں ہماری وجہ سے آباد تھیں۔ شیطان کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہمارے ارد
>>>> گرد بدکار لوگوں کا ایک بڑا گروہ تھا
>>>>
>>>> ہم نے بھی اسلامی اقدار کو ختم کرنے اور شیطانی مجالس کو فروغ دینے میں
>>>> ساری قوتیں صرف کردیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان تھے۔ اسلامی روح کے بغیر ظاہری
>>>> حد
>>>> تک میں نے کتنے ہی یورپی ممالک کا سفر کیا ۔ وہاں نائٹ کلبوں میں گاتا رہا،
>>>> صومال کے آرٹ کو اجاگر کرتا رہا، مغرب کو خوش کرنے کیلئے کہ ہم ترقی پسند
>>>> قوم
>>>> ہیں میرے ایمان کا، اسلام کا اور اخلاق کا جنازہ
>>>>
>>>>  نکلتا گیا…..مگر میری جیب بھرتی گئی۔
>>>>
>>>>
>>>>
>>>> "1983 ء میں میرے والد نے اپنے ہی خاندان میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔
>>>> خوب ہلاگلا ہوا۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہوئے۔
>>>> یقینا
>>>> یہ ایک یادگار شادی تھی۔
>>>>
>>>> "شادی کے دوران میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ میری بیوی اتنی زیادہ خوش و
>>>> خرم نہیں ہے جتنا کہ میرے جیسے معروف آدمی سے شادی کے بعد کسی لڑکی کو خوش
>>>> اور
>>>> فخرہونا چاہیے۔
>>>>
>>>> میں نے اس کو اس کی فطری حیا پر محمول کیا میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب
>>>> صبح گھر آتا ہوں تو میری بیوی جاگ رہی ہوتی ہے اور عموماً اس کے ہاتھ میں
>>>> قرآن
>>>> پاک ہوتا ہے جسے
>>>>  وہ
>>>> پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں آکر اسے بڑے جوشیلے انداز میں اس رات کی کارکردگی
>>>> سناتا۔ اپنے پرستاروں کی چاہت سے آگاہ کرتا۔ آج کتنی لڑکیوں اور لڑکیوں کے
>>>> فون
>>>> آئے جو میرے فن کے
>>>>
>>>> شیدائی ہیں۔ میری بیوی ان باتوں کو ناگواری سے سنتی اور میرے لیے ہدایت کی
>>>> دعا کرتی۔ اس دوران میں فجر کی اذان ہوجاتی اور وہ مصلے کی طرف بڑھ جاتی،
>>>> جب
>>>> کہ میں نماز پڑھے بغیر
>>>>
>>>> ہی سوجاتا۔ میں جب بھی اس سے نائٹ کلب کا ذکر کرتا، وہاں کی باتیں سنانا،
>>>> اپنی کمائی کا ذکر کرتا، بینک بیلنس کا رعب جماتا تو وہ جواباً کہتی: "رازق
>>>> تو
>>>> صرف اللہ کی ذات ہے"
>>>>
>>>> "ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ میں مسلسل اپنے فن میں مبتلا اور فسق
>>>> و فجور میں ڈوبا ہوا نماز اور عبادت کے بغیر زندگی گزارتا رہا…..پھر اچانک
>>>> ہماری زندگی میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ 1988کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ
>>>> سے
>>>> کہا:"میں اس شخص کے ساتھ ہرگز زندگی نہیں گزارسکتی جو اپنے رب کا وفادار
>>>> نہیں،
>>>> جو نماز ادا نہیں کرتا اس کی کمائی حرام ہے جو
>>>>
>>>>  فجر کے وقت گھر آتا ہے میری وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میری
>>>> بیوی میرے لیے ایسا سوچ سکتی ہے۔ بہرحال گھر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ میں نے
>>>> اس
>>>> کی باتیں سنی ان سنی کردیں
>>>>
>>>> "کچھ دن گزرے، ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔
>>>> شہر کی مساجد میں اذانیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر طرف اللہ اکبر۔۔۔اشھد ان لا
>>>> الہ
>>>> الا اللہ حی علی الصلاة کی گونج تھی۔ جب سونے کیلئے اپنے کمرے میں جانے لگا
>>>> تو
>>>> میری بیوی نے کہا: "آپ مسجد میں نماز کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ کیا آپ نے اذان
>>>> کی
>>>> آواز نہیں سنی؟"
>>>>
>>>>
>>>> میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھاکہ کسی نے مجھے نماز کیلئے کہا تھا۔ اس
>>>> لمحے میں نے خود بھی نماز پڑھنے کے بارے میں سوچا میرے جسم میں جھرجھری سی
>>>> آئی۔ بیوی کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی۔ "اس وقت مسلمان مسجد کی
>>>> طرف جارہے ہیں۔ آپ کیوں مسجد کا رخ نہیں کرتے؟ یہ رحمن کا بلاوہ ہے۔ یہ
>>>> مالک
>>>> الموت کی طرف سے دعوت ہے"اور پھر میرے ذہن
>>>>
>>>> میں خیر اور شر کی کشمکش ہوئی۔ فطرت کی آواز بلندہوئی: تمہارا نام کتنا
>>>> خوبصورت ہے…..عبد اللہ…..تم اللہ کے بندے ہو۔ مگر نہیں…..تم تو شیطان کے
>>>> چیلے
>>>> بنے ہوئے ہو۔ کبھی تم نے اپنے مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تم کب تک زندہ
>>>> رہو گے ، کب تک زندگی رہے گی، کب تک جوانی رہے گی؟ میرے سامنے ماضی
>>>> آگیا…..ضمیر نے ملامت شروع کی…..مگر فوراً کلب کی رعنائیاں، ٹیلی ویژن کی
>>>> سکرین، اسٹیج، شہرت، عزت…..کیا میں بیوی کی بات مان لوں؟ یہ کام چھوڑ دوں؟
>>>> یہ
>>>> مقام حاصل کرنے کیلئے میں نے بے حد محنت اور جدوجہد کی ہے۔ یہی
>>>>
>>>>  سوچتے سوچتے میں حسب عادت سوگیا"
>>>>
>>>> "شام کے وقت میں نے کپڑے تبدیل کیے۔ کلب جانے کیلئے تیاری کی…..میری بیوی
>>>> نے میرے کان میں سرگوشی کی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہی تھی:
>>>> ذرا
>>>> بیٹھ جائیں…..ذرا میری بات تو سنیں…..کیا ہمارا رازق اللہ نہیں ہے؟ حلال کا
>>>> ایک لقمہ حرام کے ہزاروں لقموں سے بہتر ہے"
>>>>
>>>> "مجھے ایسا محسوس ہو اکہ بیوی کی آواز…..اس کی گفتگو…..اس کے کلمات…..یقینا
>>>> درست ہیں۔ ان میں صداقت ہے…..یہ فطرت کی آواز ہیں…..مگر…..میرا فن…..میری
>>>> آواز…..میری شہرت؟…..میں تیزی سے بھاگا کہیں بیوی کی بات مان نہ لوں"
>>>>
>>>> "راستے میں بیوی کے کلمات میرا پیچھا کر رہے تھے کہ میں نائٹ کلب کے دروازے
>>>> پر پہنچا۔ اس دوران عشاءکی نما ز کا وقت ہوچکا تھا۔ میرے کانوں میں موذن کی
>>>> خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی آواز گونجی…..حی علی الصلاة…..حی علی
>>>> الفلاح….. "
>>>>
>>>> "بیوی کی نصیحت یاد آئی…..اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ فسق و فجور اور کفر
>>>> کے غبار کی تہ بیٹھنے لگی…..ایمان کی حرارت اور اسلام کی قوت زوردکھانے
>>>> لگی…..اور پھر میرا رخ نائٹ کلب سے مسجد کی طرف ہوگیا"
>>>>
>>>> "میں مسجد میں داخل ہوا، وضو کیا ۔ جماعت ہورہی تھی، میں نے نماز ادا کی۔
>>>> بعض نمازیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کوئی ہاتھ ملا رہا ہے، کوئی دور سے سلام
>>>> کررہا
>>>> ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور میرا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ الحمد اللہ
>>>> میں
>>>> نے فطرت کو پالیا ہے"
>>>>
>>>> "کسی نے مجھے صحیح بخاری کا نسخہ تحفے میں دیا۔ یہ اب میرے لیے متاع حیات
>>>> تھی…..میں اپنی نئی ماڈل کی قیمتی گاڑی میں سوار ہوا۔ اس کا رخ نائٹ کلب کی
>>>> بجائے گھر کی طرف دیکھا۔ میری بیوی جو مجھے فجر کے وقت گھر آتے دیکھاکرتی
>>>> تھی…..آج عشاءکے بعد گھر میں دیکھ رہی تھی۔ بیوی کی طرف بڑھا۔
>>>> "بیگم…..تمہیں
>>>> مبارک ہو…..میں نے آج سے گانوں سے توبہ کرلی ہ۔ میں نے فسق وفجور اور لہو و
>>>> لعب کی زندگی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ میں نے سچی توبہ کرلی ہے۔ میں الحمد
>>>> اللہ تائب ہوگیا ہوں۔
>>>>
>>>> "پھر میں نے محسوس کیا گویا میں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے سب سے پہلا
>>>> کام وہ اسٹوڈیو، جس کا میں مالک تھا، جس میں گانے ریکارڈ کراتا تھا، جس میں
>>>> دنیا بھر کی جدید مشینیں تھیں، جن کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرتا رہا
>>>> تھا…..میں نے اس اسٹوڈیو کو دعوت الی اللہ کیلئے وقف کردیا کہ اب یہاں قرآن
>>>> پاک کی کیسٹیں، علمائے کرام کی تقاریر اور اسلامی ترانے ریکارڈ ہونگے میں
>>>> نے
>>>> قیمتی گاڑی فروخت کردی، خوبصورت محل نما کوٹھی فروخت کردی…..میں ایک اوسط
>>>> درجے
>>>> کے مکان میں آگیا۔ اب میرا وقت اپنے گھر میں گزرنےلگا۔ میری ایک ہی
>>>> تمناتھی…..ایک ہی جستجو…..میں حلقہ قرآن سے وابستہ ہو گیا…..اب مجھے قرآن
>>>> پاک
>>>> حفظ کرنے کی خواہش تھی"
>>>>
>>>> 1990 میں عبد اللہ نے اپنے وطن کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور پھر وہ پہلی
>>>> مرتبہ اس گھر کی زیارت کیلئے آیا جس کی زیارت اور جس کے گرد چکر لگانے کی
>>>> تڑپ
>>>> دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا، نیک بخت بیوی
>>>> بھی ہمراہ تھی۔ عمرہ ادا کیا تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مکہ
>>>> مکرمہ
>>>> میں بعض اہل خیر کو معلوم ہوا ،وہ اس سے واقف تھے …..اس کی سابقہ زندگی
>>>> سے…..اس کے ماضی سے ….. اس کی اسلام پر پختگی سے …..اور پھر انہوں نے عبد
>>>> اللہ
>>>> کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی تکریم کی، اس کی کفالت کی ….. کچھ ہی عرصہ میں
>>>> اس
>>>> نے قرآن کے دس پارت حفظ کرلیے۔
>>>>
>>>> اب وہ ایک مبلغ تھا عقیدہ کا، اسلام کا ، قرآن کا، حدیث کا پھر وہ اس دوران
>>>> میں کئی مرتبہ عمرہ کرنے کیلئے مکہ مکرمہ آیا۔ پھر اس کو اس بلد الحرام
>>>> میں،
>>>> مکہ مکرمہ میں، اس مبارک اور مقدس شہر کی مقدس مسجد میں بطور موذن موقع مل
>>>> گیا۔ عبد اللہ آج بھی مبلغ ہے، وہ موذن ہے اسلام کی آواز کا وہ سعودی عرب
>>>> میں
>>>> ہو یا صومال میں، ہر جگہ وہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور
>>>> نجانے کتنے ہی گنہگاروں اور خطاکاروں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی ہے اور اپنی
>>>> زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنالی ہیں تاکہ وہ بھی حقیقی سعادت سے بہرہ ور
>>>> ہو
>>>> سکیں بالکل اسی طرح جس طرح عبد اللہ سعادت حاصل کرچکا ہے۔
>>>>
>>>> اللہ کے رسول کا فرمان بالکل حق ہے:
>>>>
>>>> ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراة الصالحة
>>>> ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
>>>>
>>>> "دنیا ایک پونجی (فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترین پونجی نیک بیوی ہ
>>>>
>>>> --
>>>>
>>>> _______ استغفر الله _______
>>>>  !...کاش  آزاد  قبیلے  کے  سخنور  ہوتے
>>>>  !..ہم محاذوں پر نہ بکتے تو سکندر ہوتے
>>>>  خود فریبی کے خوابوں میں رہے ہم ورنہ
>>>>  !....اپنی اوقات میں رهتے تو قلندر ہوتے
>>>> موج کوثر کی قسم ہم تھے محبت کے والی
>>>> خاک کے در پے نہ جھکتے تو سمندر ہوتے
>>>> آنکھ نی خواب کے لالچ میں خیانت کر لی
>>>> ! .. ورنہ ہم جاگتی رتوں کے پیامبر ہوتے
>>>>
>>> <http://groups.google.com/group/coool_vu_students?hl=en>
> [image: Inline image 1]
>
>
>
> --
>
> Adnan Ahmed Qazi
>
> MBA Finance
>
> Semester-3
>
> Cell: 0322-4815056
>
> Lahore Cantt.
>
> --
> You received this message because you are subscribed to the Google Groups
> "Pak Youth" group.
> To post to this group, send email to pak-youth@googlegroups.com.
> To unsubscribe from this group, send email to
> pak-youth+unsubscribe@googlegroups.com.
> For more options, visit this group at
> http://groups.google.com/group/pak-youth?hl=en.
>
>

--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pak Youth" group.
To post to this group, send email to pak-youth@googlegroups.com.
To unsubscribe from this group, send email to pak-youth+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit this group at http://groups.google.com/group/pak-youth?hl=en.




--
Regards,

Abbad-ur-Rehman
MICRO WORLD
+92-308-7418447




--
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pak Youth" group.
To post to this group, send email to pak-youth@googlegroups.com.
To unsubscribe from this group, send email to pak-youth+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit this group at http://groups.google.com/group/pak-youth?hl=en.

No comments:

Post a Comment