Monday 11 June 2012

::::|| VU ||:::: اب میں سکول سے کبھی نہیں بھاگوں گا!!!

اچھے اچھے پیارے بچو! آج میں آپ کو سکول سے بھاگنے والے کی ایک داستان سناتا ہوں جنہیں سکول سے بھاگ جانے کے بعد سارا دن (سکول کی چھٹی تک) نہر پر نہانے کے سوا کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ یہ واقعہ میرے ایک دوست ضیاء الدین صاحب کا ہے جو کہ مجھ سے بہت چھوٹے تھے حالانکہ میرا کام دوسروں تک اچھائیاں پہنچانا ہے چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔
تو اب ضیاء الدین کی زبانی سنیے۔ ہمارا کام جو کہ روز کا معمول تھا سکول سے بھاگنا… ہم گرمیوں میں نہر پر نہانے کیلئے صبح ہی صبح پہنچ جاتے اور دوپہر تک گھروں کو واپسی ہوتی تھی۔ ہاںتو میں کہہ رہا تھا کہ ضیاء الدین صاحب جو کہ (جاوا) کے نام سے مشہور تھے سارا سارا دن نہر پر نہانے اور دوپہر کے قریب گھر روانگی شروع کردیتے ۔ایک دن ان کے ساتھی اسے تنہا چھوڑ کر غائب ہوگئے اب واپسی پر ضیاء صاحب کبھی اس گلی اور کبھی اس گلی میں ۔۔۔۔۔ مگر ان کے ساتھی کہیں بھی نہیں ملے اور نہ ہی وہاں تھے۔ مایوس ہوکر نڈھال ہوکر آہستہ آہستہ چلنے لگے انہیں یکدم یہ محسوس ہوا کہ شاید اس گلی میں یہ چھپے ہوئے ہیں اور یہ بالکل دبے پاؤں اس گلی کے کونے تک پہنچے ان کا کونے تک پہنچنا ہی تھا کہ یکلخت گلی میں مڑے تو وہاں ان گنت مرغیاں تھیں اور لامحالہ ان مرغیوں کا ڈرنا' چیخنا' چلانا' پھڑپھڑانا لازمی امر تھا مگر اس سب کچھ کے باوجود ایک اور مصیبت جو کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تمام گھروں کے دروازے کھلنا شروع ہوئے اور ہر ہر گیٹ پر مختلف شکل و صورت کے اصحاب انتہائی غصے کی حالت میں برآمد ہونا شروع ہوگئے دونوں طرف بلکہ تین اطراف سے مجھے گھیر لیا گیا اور میری پٹائی شروع ہوگئی' دو چار گھونسے تھپڑ ہی پڑے ہونگے کہ میں نے پوچھا حضرات میرا قصور کیا ہے؟ کس جرم میں مجھے پیٹا جارہا ہے۔
 اتنے میں ایک باریش بزرگ ایک گیٹ سے برآمد ہوئے تو انہوں نے ہاتھ چلانا بند کروادیا۔ اس بزرگ کے استفسار پر میرا جرم مجھے معلوم ہوگیا کہ انہوں نے مرغی چور کو پکڑ رکھا ہے اب تو میرا پریشان ہونا لازمی امر تھا اب کیا کروں… ہر ایک اپنی اپنی کہہ رہا تھا کہ روز ایک مرغی غائب ہوجاتی تھی' آج ہم نے مل کر نہ سونے کا عہد کیا تھا اور آج ہماری خوش قسمتی اور تمہاری بدقسمتی کہ تم دھرلیے گئے۔ ہم آپ کو پولیس کے حوالے کرکے چھوڑیں گے لیکن ایک آواز کے آنے سے سناٹا چھا گیا اور میرا دل اندر سے خوش ہوگیا کہ اب رہائی ہوئی کہ ہوئی اور وہ بڑے میاں بڑے پیار سے مخاطب ہوئے کہ بیٹا آئندہ ایسا کام نہیں کرنا اور پیار سے مجھے رخصت کرنے کیلئے گلے لگایا اور نصیحت کی باتیں کرتے رہے اور میرے منہ پر پیار سے آخری رخصتی پیار کیا اور میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پاؤں سرپر رکھ کر بھاگا۔ جب روڈ (چارسدہ روڈ) پر پہنچا تو جو کوئی مجھے دیکھتا تو ضرور ہنستا… میں پتہ نہیں کیا سمجھتا رہا اور مسلسل آگے ہی آگے چلتا رہا کہ ناگہاں ایک دکان میں ایک آئینہ پر میری نظر پڑی اور میں نے بے تحاشہ رونا شروع کردیا۔ بے گناہ' بے خطا مار بھی پڑی اور منہ بھی کالا کیا… ہائے یہ میں نے کیا کیا…اب میں سکول سے کبھی نہیں بھاگوں گا۔
Life is labor, death is rest.

Thanks

Best Regards,

Dr. Muhammad Kashif Mahmood.

MD / FP

Al-Mustafa Medicare

E-mail address: dr.mkm12@gmail.com

Mobile # +0092-308-7640486


 

--
For study materials, past papers and assignments,
Join VU School at www.vuscool.com
 
Facebook Group link
http://www.facebook.com/groups/vuCoooL
 
CoooL Virtual University Students Google Group.
To post to this group, send email to coool_vu_students@googlegroups.com
 
home page
http://groups.google.com/group/coool_vu_students?hl=en

No comments:

Post a Comment